Saturday 19 November 2016

Imam

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی امامت کا دور :-

ساتويں امام، حضرت موسيٰ کاظم عليہ السلام 7 صفر سن 128 ہجری کو مکہ اور مدينہ کے درميان واقع ايک گاوں، ابواء ميں دنيا ميں تشريف لائے- آپ (ع) نے بھي تمام ائمہ معصومين کی طرح اپنی امامت کے 35 برسوں کے دوران دين اسلام کے احیاء اور الہی اقدار کے فروغ کے لئے ہر قسم کی مشکلات اور پريشانيوں کا خندہ پيشانی سے مقابلہ کيا اور راہِ اسلام ميں صبر و استقامت کو عملی جامہ پہنايا- آپ کا دورِ امامت چار ظالم عباسی خلفا کے ساتھ رہا یعنی منصور، مہدی، ہادی اور ہارون الرشيد -
آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہايت مصائب اور شديد مشکلات اور خفقان کا دور تھا ہرآنے والے بادشاہ کی امام پرسخت نظر تھی ليکن يہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دورميں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدايت عطا فرماتے رہے، اتنے نامناسب حالات ميں آپ نے اس دانشگاہ کی جو آپ کے پدر بزرگوار کی قائم کردہ تھی پاسداری اور حفاظت فرمائ آپ کا مقصد امت کی ہدايت اورنشرعلوم آل محمد تھا جس کی آپ نے قدم قدم پر ترويج کی اور حکومت وقت توبہرحال امامت کی محتاج ہے -
چنانچہ تاريخ ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ مہدی جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدينہ آيا اور امام موسیٰ کاظم سے مسلۂ تحريم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص ميں خيال کرتا تھا کہ معاذ اللہ اس طرح امام کی رسوائی کی جائے ليکن شايد وہ يہ نہيں جانتا تھا کہ يہ وارث باب مدينتہ العلم ہيں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کی قران سے دليل ديجيے  امام نے فرمايا ’’خداوند سورۂ اعراف ميں فرماتا ہے ''اے حبيب ! کہہ دو کہ ميرے خدا نے کارِ بد حرام قرار ديا ہے'' اور يہا ں ''اثم'' سے مراد شراب ہے ‘‘امام يہ کہہ کر خاموش نہيں ہوتے ہيں بلکہ فرماتے ہيں خدا وند نيز سورۂ بقرہ ميں فرماتا ہے اے ميرے حبيب! لوگ تم سے شراب اور قمار کے بارے ميں سوال کرتے ہيں کہہ دو کہ يہ دونوں بہت عظيم گناہ ہیں اسی وجہ سے شراب قرآن ميں صريحاً حرام قرار دی گئی ہے مہدی، امام کے اس عالمانہ جواب سے بہت متاثر ہوا اور بے اختيارکہنے لگا ايسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئی نہيں دے سکتا یہی سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام کی حکومت تھی اگرچہ لوگوں کے جسموں پر حکمران حاکم تھے-
خلیفہ ہارون عباسی کے حالات ميں ملتا ہے کہ اس نے ايک مرتبہ قبرِ رسول اللہ پر کھڑ ے ہو کر کہا،
اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے پسرِ عمّو آپ پر سلام -  وہ يہ چاہتا تھا کہ ميرے اس عمل سے لوگ يہ پہچان ليں کہ خليفہ، سرور کائنات کا چچازاد بھائی ہے-  اسی ہنگام میں امام کاظم علیہ السلام  قبر پيغمبر کے نزديک آئے اورفرمايا
’’اے الله کے رسول! آپ پرسلام‘‘ اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام‘‘
ہارون امام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا- فوراً امام کی طرف رخ کر کے کہا،
’’آپ فرزند رسول ہونے کا دعویٰ کيسے کرسکتے ہيں؟ جب کہ آپ علی مرتضیٰ کے فرزند ہیں- امام نے فرمايا تو نے قرآن کريم ميں سورۂ انعام کی آيت نہيں پڑھی جس ميں خدا فرماتا ہے ’’قبيلۂ ابراہيم سے داۆد، سليمان، ايوب، يوسف، موسیٰ، ہارون، زکريا، یحییٰ، عیسیٰ، اورالياس يہ سب کے سب ہمارے نيک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کی ہدايت کی اس آيت ميں اللہ نے حضرت عیسیٰ کو گزشتہ انبياء کا فرزند قرار ديا ہے- حالانکہ عیسیٰ بغير باپ کے پيدا ہوئے تھے - حضرت مريم کي طرف سے پيامبران سابق کی طرف نسبت دی ہے اس آيۂ کريمہ کی رو سے بیٹی کا بيٹا فرزند شمار ہوتا ہے- 
اس دليل کے تحت، ميں اپنی ماں فاطمہ کے واسطہ سے فرزند نبی (ص) ہوں- اس کے بعد امام نے فرمایا کہ اے ہارون! يہ بتا کہ اگر اسی وقت پيغمبر (ص) دنيا ميں آجائيں اور اپنے لئے تیری بیٹی کا سوال فرمائيں تو تو اپنی بیٹی پيغمبر کي زوجيت ميں دے گا يا نہيں؟ ہارون نے برجستہ جواب ديا کہ نہ صرف يہ کہ ميں اپنی بیٹی کو پيامبر کی زوجيت ميں دونگا بلکہ اس کارنامے پر تمام عرب و عجم پر افتخار کرونگا-
امام نے فرمایا کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کريگا ليکن پيامبر ہماری بیٹی کے بارے ميں يہ سوال نہيں کر سکتے اس لئے کہ ہماری بيٹياں پيامبر کي بيٹياں ہيں اور باپ پر بیٹی حرام ہے امام کے اس استدلال سے حاکم وقت نہايت پشيمان ہوا-

امام موسيٰ کاظم نے علم امامت کی بنياد پر بڑے بڑے مغرور اور متکبر بادشاہوں سے اپنا علمی سکہ منواليا- امام قدم قدم پر لوگوں کی ہدايت کے اسباب فراہم کرتے رہے- چنانچہ جب ہارون نے علی بن يقطين کو اپنا وزير بنانا چاہا اور علی بن يقطين نے امام موسیٰ کاظم سے مشورہ کيا تو آپ نے اجازت دیدی امام کا ہدف يہ تھا کہ اس طريقہ سے جان و مال و حقوق شيعيان محفوظ رہيں- امام نے علی بن يقطين سے فرمايا تو ہمارے شيعوں کی جان و مال کو ہارون کے شر سے بچانا ہم تيري تين چيزوں کي ضمانت ليتے ہيں کہ اگر تو نے اس عہد کو پورا کيا تو ہم ضامن ہيں- تم تلوار سے ہرگز قتل نہيں کئے جاۆگے- ہرگز مفلس نہ ہو گے- تمہيں کبھي قيد نہيں کيا جائے گا- علی بن يقطين نے ہميشہ امام کے شيعوں کو حکومت کے شر سے بچايا اور امام کا وعدہ بھی پورا ہوا- نہ ہارون، پسر يقطين کو قتل کرسکا- نہ وہ تنگدست ہوا- نہ قيد ہوا- لوگوں نے بہت چاہا کہ فرزند يقطين کو قتل کرا ديا جائے ليکن ضمانتِ امامت، علی بن يقطين کے سر پر سايہ فگن تھی - ايک مرتبہ ہارون نے علی بن يقطين کو لباس فاخرہ ديا علی بن يقطين نے اس لباس کو امام موسیٰ کاظم کی خدمت ميں پيش کر ديا کہ مولا يہ آپ کے شايانِ شان ہے- امام نے اس لباس کو واپس کر ديا اور فرمایا، اے علي ابن يقطين اس لباس کو محفوظ رکھو يہ برے وقت ميں تمہارے کام آئے گا ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکايت کی کہ علی ابن يقطين، امام کاظم کی امامت کا معتقد ہے يہ ان کو خمس کی رقم روانہ کرتا ہے يہاں تک کہ جو لباس فاخرہ تو نے علی ابن يقطين کو عنايت کيا تھا وہ بھي اس نے امام کاظم کو دے ديا ہے- بادشاہ سخت غضب ناک ہوا اور علی ابن يقطين کے قتل پر آمادہ ہو گيا فورا علی ابن يقطين کو طلب کيا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو ميں نے تمہيں عنايت کيا تھا؟ علی ابن يقطين نے غلام کو بھيج کر لباس، ہارون کے سامنے پيش کر ديا جس پر ہارون بہت زيادہ خجالت زدہ ہوا- 

١٤٨ھ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی وفات ہوئی، اس وقت سے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بذات خود فرائض امام کے ذمہ دار ہوئے اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بادشاہ تھا، یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعدا دسادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے- تلوار کے گھاٹ اتارے گئے دیواروں میں چنوائے گئے یا قید رکھے گئے، خود امام جعفرصادق علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اورمختلف صورت سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھی، یہاں تک کہ منصور ہی کا بھیجا ہوا زہر تھا جس سے آپ دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔
ان حالات میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھا کہ حکومت وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے اپنے آخری وقت میں اخلاقی بوجھ حکومت کے کندھوں پر رکھ دینے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائیداد اور گھر بار کے انتظامات کے لیے پانچ شخصوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی جس میں پہلا شخص خود خلیفہ وقت منصورعباسی تھا، اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ، اورعبداللہ افطح جو (بہ روایت) امام موسیٰ کاظم کے بڑے بھائی تھے، اورحضرت امام موسی کاظم اوران کی والدہ معظمہ حمیدہ خاتون۔
امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا، اور آپ کا تحفظ بھی کامیاب ثابت ہوا، چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاح منصورکو پہنچی تواس نے پہلے تو سیاسی مصلحت سے اظہار رنج کیا، تین مرتبہ اناللہ واناالیہ راجعون کہا اورکہا کہ اب بھلا جعفر کا مثل کون ہے؟ اس کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفرصادق نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ہو تواس کا سر فورا قلم کردو، حاکم مدینہ نے جواب میں لکھا کہ انہوں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ہیں جن میں سے پہلے آپ خود ہیں، یہ جواب سن کر منصوردیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا کہ اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نہیں کئے جاسکتے اس کے بعد دس برس منصور زندہ رہا لیکن امام موسی کاظم علیہ السلام سے کوئی تعرض نہ کیا، اورآپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دہی میں امن و سکون کے ساتھ مصروف رہے یہ بھی تھا کہ اس زمانہ میں منصور شہر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے ۱۵۷ ھ یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی، اس لیے وہ امام موسی کاظم کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نہیں ہوا لیکن اس عہد سے قبل وہ سادات کشی میں کمال دکھا چکا تھا۔
علامہ مقریزی لکھتے ہیں کہ منصورکے زمانے میں بے انتہا سادات شہید کئے گئے ہیں اور جو بچے ہیں وہ وطن چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں انہیں تارکین وطن میں ہاشم بن ابراہیم بن اسماعیل الدیباج بن ابراہیم عمر بن الحسن المثنی ابن امام حسن بھی تھے جنہوں نے ملتان کے علاقوں میں سے مقام ”خان“ میں سکونت اختیارکرلی تھی (النزاع والتخاصم ص ۴۷ طبع مصر)۔
۱۵۸ ھ کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا، اور اس کا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھا، شروع میں تو اس نے بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کی عزت و احترام کے خلاف کوئی برتاو نہیں کیا مگرچند سال بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور ۱۶۴ ھ میں جب وہ حج کے نام سے حجازکی طرف گیا توامام موسی کاظم علیہ السلام کواپنے ساتھ مکہ سے بغداد لے گیا اور قید کردیا ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت کو مدینہ کی طرف واپسی کا موقع دیا گیا۔
مہدی کے بعد اس کا بھائی ہادی ۱٦٩ ھ میں تخت سلطنت پربیٹھا اورصرف ایک سال ایک ماہ تک اس نے حکومت کی، اس کے بعد ہارون عباسی کا زمانہ آیا جس میں امام موسی کاظم علیہ السلام کو آزادی کی سانس لینا نصیب نہیں ہوئی (سوانح امام موسی کاظم ص ۵) ۔
علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ درجہ امامت پر فائز ہوئے اس وقت آپ کی عمربیس سال کی تھی (اعلام الوری ص ۱۷۱)