Saturday 19 November 2016

Imam

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی امامت کا دور :-

ساتويں امام، حضرت موسيٰ کاظم عليہ السلام 7 صفر سن 128 ہجری کو مکہ اور مدينہ کے درميان واقع ايک گاوں، ابواء ميں دنيا ميں تشريف لائے- آپ (ع) نے بھي تمام ائمہ معصومين کی طرح اپنی امامت کے 35 برسوں کے دوران دين اسلام کے احیاء اور الہی اقدار کے فروغ کے لئے ہر قسم کی مشکلات اور پريشانيوں کا خندہ پيشانی سے مقابلہ کيا اور راہِ اسلام ميں صبر و استقامت کو عملی جامہ پہنايا- آپ کا دورِ امامت چار ظالم عباسی خلفا کے ساتھ رہا یعنی منصور، مہدی، ہادی اور ہارون الرشيد -
آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہايت مصائب اور شديد مشکلات اور خفقان کا دور تھا ہرآنے والے بادشاہ کی امام پرسخت نظر تھی ليکن يہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دورميں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدايت عطا فرماتے رہے، اتنے نامناسب حالات ميں آپ نے اس دانشگاہ کی جو آپ کے پدر بزرگوار کی قائم کردہ تھی پاسداری اور حفاظت فرمائ آپ کا مقصد امت کی ہدايت اورنشرعلوم آل محمد تھا جس کی آپ نے قدم قدم پر ترويج کی اور حکومت وقت توبہرحال امامت کی محتاج ہے -
چنانچہ تاريخ ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ مہدی جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدينہ آيا اور امام موسیٰ کاظم سے مسلۂ تحريم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص ميں خيال کرتا تھا کہ معاذ اللہ اس طرح امام کی رسوائی کی جائے ليکن شايد وہ يہ نہيں جانتا تھا کہ يہ وارث باب مدينتہ العلم ہيں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کی قران سے دليل ديجيے  امام نے فرمايا ’’خداوند سورۂ اعراف ميں فرماتا ہے ''اے حبيب ! کہہ دو کہ ميرے خدا نے کارِ بد حرام قرار ديا ہے'' اور يہا ں ''اثم'' سے مراد شراب ہے ‘‘امام يہ کہہ کر خاموش نہيں ہوتے ہيں بلکہ فرماتے ہيں خدا وند نيز سورۂ بقرہ ميں فرماتا ہے اے ميرے حبيب! لوگ تم سے شراب اور قمار کے بارے ميں سوال کرتے ہيں کہہ دو کہ يہ دونوں بہت عظيم گناہ ہیں اسی وجہ سے شراب قرآن ميں صريحاً حرام قرار دی گئی ہے مہدی، امام کے اس عالمانہ جواب سے بہت متاثر ہوا اور بے اختيارکہنے لگا ايسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئی نہيں دے سکتا یہی سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام کی حکومت تھی اگرچہ لوگوں کے جسموں پر حکمران حاکم تھے-
خلیفہ ہارون عباسی کے حالات ميں ملتا ہے کہ اس نے ايک مرتبہ قبرِ رسول اللہ پر کھڑ ے ہو کر کہا،
اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے پسرِ عمّو آپ پر سلام -  وہ يہ چاہتا تھا کہ ميرے اس عمل سے لوگ يہ پہچان ليں کہ خليفہ، سرور کائنات کا چچازاد بھائی ہے-  اسی ہنگام میں امام کاظم علیہ السلام  قبر پيغمبر کے نزديک آئے اورفرمايا
’’اے الله کے رسول! آپ پرسلام‘‘ اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام‘‘
ہارون امام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا- فوراً امام کی طرف رخ کر کے کہا،
’’آپ فرزند رسول ہونے کا دعویٰ کيسے کرسکتے ہيں؟ جب کہ آپ علی مرتضیٰ کے فرزند ہیں- امام نے فرمايا تو نے قرآن کريم ميں سورۂ انعام کی آيت نہيں پڑھی جس ميں خدا فرماتا ہے ’’قبيلۂ ابراہيم سے داۆد، سليمان، ايوب، يوسف، موسیٰ، ہارون، زکريا، یحییٰ، عیسیٰ، اورالياس يہ سب کے سب ہمارے نيک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کی ہدايت کی اس آيت ميں اللہ نے حضرت عیسیٰ کو گزشتہ انبياء کا فرزند قرار ديا ہے- حالانکہ عیسیٰ بغير باپ کے پيدا ہوئے تھے - حضرت مريم کي طرف سے پيامبران سابق کی طرف نسبت دی ہے اس آيۂ کريمہ کی رو سے بیٹی کا بيٹا فرزند شمار ہوتا ہے- 
اس دليل کے تحت، ميں اپنی ماں فاطمہ کے واسطہ سے فرزند نبی (ص) ہوں- اس کے بعد امام نے فرمایا کہ اے ہارون! يہ بتا کہ اگر اسی وقت پيغمبر (ص) دنيا ميں آجائيں اور اپنے لئے تیری بیٹی کا سوال فرمائيں تو تو اپنی بیٹی پيغمبر کي زوجيت ميں دے گا يا نہيں؟ ہارون نے برجستہ جواب ديا کہ نہ صرف يہ کہ ميں اپنی بیٹی کو پيامبر کی زوجيت ميں دونگا بلکہ اس کارنامے پر تمام عرب و عجم پر افتخار کرونگا-
امام نے فرمایا کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کريگا ليکن پيامبر ہماری بیٹی کے بارے ميں يہ سوال نہيں کر سکتے اس لئے کہ ہماری بيٹياں پيامبر کي بيٹياں ہيں اور باپ پر بیٹی حرام ہے امام کے اس استدلال سے حاکم وقت نہايت پشيمان ہوا-

امام موسيٰ کاظم نے علم امامت کی بنياد پر بڑے بڑے مغرور اور متکبر بادشاہوں سے اپنا علمی سکہ منواليا- امام قدم قدم پر لوگوں کی ہدايت کے اسباب فراہم کرتے رہے- چنانچہ جب ہارون نے علی بن يقطين کو اپنا وزير بنانا چاہا اور علی بن يقطين نے امام موسیٰ کاظم سے مشورہ کيا تو آپ نے اجازت دیدی امام کا ہدف يہ تھا کہ اس طريقہ سے جان و مال و حقوق شيعيان محفوظ رہيں- امام نے علی بن يقطين سے فرمايا تو ہمارے شيعوں کی جان و مال کو ہارون کے شر سے بچانا ہم تيري تين چيزوں کي ضمانت ليتے ہيں کہ اگر تو نے اس عہد کو پورا کيا تو ہم ضامن ہيں- تم تلوار سے ہرگز قتل نہيں کئے جاۆگے- ہرگز مفلس نہ ہو گے- تمہيں کبھي قيد نہيں کيا جائے گا- علی بن يقطين نے ہميشہ امام کے شيعوں کو حکومت کے شر سے بچايا اور امام کا وعدہ بھی پورا ہوا- نہ ہارون، پسر يقطين کو قتل کرسکا- نہ وہ تنگدست ہوا- نہ قيد ہوا- لوگوں نے بہت چاہا کہ فرزند يقطين کو قتل کرا ديا جائے ليکن ضمانتِ امامت، علی بن يقطين کے سر پر سايہ فگن تھی - ايک مرتبہ ہارون نے علی بن يقطين کو لباس فاخرہ ديا علی بن يقطين نے اس لباس کو امام موسیٰ کاظم کی خدمت ميں پيش کر ديا کہ مولا يہ آپ کے شايانِ شان ہے- امام نے اس لباس کو واپس کر ديا اور فرمایا، اے علي ابن يقطين اس لباس کو محفوظ رکھو يہ برے وقت ميں تمہارے کام آئے گا ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکايت کی کہ علی ابن يقطين، امام کاظم کی امامت کا معتقد ہے يہ ان کو خمس کی رقم روانہ کرتا ہے يہاں تک کہ جو لباس فاخرہ تو نے علی ابن يقطين کو عنايت کيا تھا وہ بھي اس نے امام کاظم کو دے ديا ہے- بادشاہ سخت غضب ناک ہوا اور علی ابن يقطين کے قتل پر آمادہ ہو گيا فورا علی ابن يقطين کو طلب کيا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو ميں نے تمہيں عنايت کيا تھا؟ علی ابن يقطين نے غلام کو بھيج کر لباس، ہارون کے سامنے پيش کر ديا جس پر ہارون بہت زيادہ خجالت زدہ ہوا- 

١٤٨ھ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی وفات ہوئی، اس وقت سے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بذات خود فرائض امام کے ذمہ دار ہوئے اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بادشاہ تھا، یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعدا دسادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے- تلوار کے گھاٹ اتارے گئے دیواروں میں چنوائے گئے یا قید رکھے گئے، خود امام جعفرصادق علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اورمختلف صورت سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھی، یہاں تک کہ منصور ہی کا بھیجا ہوا زہر تھا جس سے آپ دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔
ان حالات میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھا کہ حکومت وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے اپنے آخری وقت میں اخلاقی بوجھ حکومت کے کندھوں پر رکھ دینے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائیداد اور گھر بار کے انتظامات کے لیے پانچ شخصوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی جس میں پہلا شخص خود خلیفہ وقت منصورعباسی تھا، اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ، اورعبداللہ افطح جو (بہ روایت) امام موسیٰ کاظم کے بڑے بھائی تھے، اورحضرت امام موسی کاظم اوران کی والدہ معظمہ حمیدہ خاتون۔
امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا، اور آپ کا تحفظ بھی کامیاب ثابت ہوا، چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاح منصورکو پہنچی تواس نے پہلے تو سیاسی مصلحت سے اظہار رنج کیا، تین مرتبہ اناللہ واناالیہ راجعون کہا اورکہا کہ اب بھلا جعفر کا مثل کون ہے؟ اس کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفرصادق نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ہو تواس کا سر فورا قلم کردو، حاکم مدینہ نے جواب میں لکھا کہ انہوں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ہیں جن میں سے پہلے آپ خود ہیں، یہ جواب سن کر منصوردیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا کہ اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نہیں کئے جاسکتے اس کے بعد دس برس منصور زندہ رہا لیکن امام موسی کاظم علیہ السلام سے کوئی تعرض نہ کیا، اورآپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دہی میں امن و سکون کے ساتھ مصروف رہے یہ بھی تھا کہ اس زمانہ میں منصور شہر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے ۱۵۷ ھ یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی، اس لیے وہ امام موسی کاظم کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نہیں ہوا لیکن اس عہد سے قبل وہ سادات کشی میں کمال دکھا چکا تھا۔
علامہ مقریزی لکھتے ہیں کہ منصورکے زمانے میں بے انتہا سادات شہید کئے گئے ہیں اور جو بچے ہیں وہ وطن چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں انہیں تارکین وطن میں ہاشم بن ابراہیم بن اسماعیل الدیباج بن ابراہیم عمر بن الحسن المثنی ابن امام حسن بھی تھے جنہوں نے ملتان کے علاقوں میں سے مقام ”خان“ میں سکونت اختیارکرلی تھی (النزاع والتخاصم ص ۴۷ طبع مصر)۔
۱۵۸ ھ کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا، اور اس کا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھا، شروع میں تو اس نے بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کی عزت و احترام کے خلاف کوئی برتاو نہیں کیا مگرچند سال بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور ۱۶۴ ھ میں جب وہ حج کے نام سے حجازکی طرف گیا توامام موسی کاظم علیہ السلام کواپنے ساتھ مکہ سے بغداد لے گیا اور قید کردیا ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت کو مدینہ کی طرف واپسی کا موقع دیا گیا۔
مہدی کے بعد اس کا بھائی ہادی ۱٦٩ ھ میں تخت سلطنت پربیٹھا اورصرف ایک سال ایک ماہ تک اس نے حکومت کی، اس کے بعد ہارون عباسی کا زمانہ آیا جس میں امام موسی کاظم علیہ السلام کو آزادی کی سانس لینا نصیب نہیں ہوئی (سوانح امام موسی کاظم ص ۵) ۔
علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ درجہ امامت پر فائز ہوئے اس وقت آپ کی عمربیس سال کی تھی (اعلام الوری ص ۱۷۱)

Tuesday 20 September 2016

سنو سنو اعلان خاص سنو

عید غدیر. 
‏ بسمہ تعالیٰ
حمد ہے اس ذات کے لئے جس نے اس انسان کو قلم کی طاقت دی اور انسان کو قلم کے ساتھ لکھنا سکھایا اور درود و سلام ہو ہمارے پیاری نبی صہ پر جسے اس نے عالمین کے لئے سراپا رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور سلام و رحمت  ہو ان کی آل پاک۴ پر جنہین اس نے پورے جہاں کے لئے چراغ ہدایت بنایا ہے.
آج میں ناچیز کو جو سعادت حاصل ہوئے ہے و ہے خم غدیر.
خم غدیر کے بارے امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ہیں:‎
غدیر کا دن عید کا دن ہے اور اہل بیت اور اُ ن سے محبت کرنے والوں کے نزدیک عیدوں میں سب سے افضل ہے،، عوالم جلد 3،15ص ‏‎224‏ .

            عید غدیر ایک عظیم تر ین عید ہے کہ جب سلسلہ نبوت ختم ہوا اور سلسلہ امامت شروع ہوا جو تا قیام قیامت باقی رہے گا،
رسول اللہ‌ صہ نے اپنے طرف سے اپنے جانشین کا انتخاب نہیں کیا. قرآن مجید میں جگہ جگہ پر اللہ تعالی کی طرف سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ انتخاب ہم کرتے ہیں، منتخب ہم کرتے ہیں اسی لیے جب روئے زمین پر پہلا خلیفہ بنایا جارہا تھا تب قدرت کی طرف سے اعلان ہوا کہ، انی جاعل فی الارض خلیفتہ، اس آیت مین لفظ،  جاعل، کے ذریعے اللہ اپنی مستقل صفت کا اعلان کر رہاہے کے میرے علاوہ کسی کو انتخاب کرنے کا حق نہیں.
حضرت ابراہیم ۴ کے سلسلہ میں اعلان قدرت ہوا.
ترجمہ:  میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ( سورہ بقرہ آیت ۱۲۴)
اب معلوم ہوا کے امام بنانے کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے. پھر حضرت داؤد۴ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اے داؤد ہم نے آپ کو زمیں میں خلیفہ بنایاہے.( سورت ص آیت ۲۶ )

نبی پاک کا آخری حج تھا سوا لکھ حاجیوں کا مجمہ تھا حکم الہٰی آیا اے نبی صہ آج اگر تو نے اس کام کو انجام نہ دیا تو، تونے کوئی کام انجام نہیں دیا. پرودگار کونسا کام انجام دون.
اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا اے رسول آپ اعلان فرمادیجئے تو حضرت رسالت مآب صہ نے مولائے کائنات حضرت علی ع کو اپنے ہاتھوں پر بلند کرتے یہ ارشاد فرمایا:
 مـــــــــــــن کــنــــــــــــــت مـــــــــــــــولاہ فـــھـــــــــــــــذا عــــــــلــــــــی مـــــــــولاہ.
جس کا میں مولا ہوں اس کا علی۴ مولا ہیںـں.

‏امام علی علیہ السلام نے فرمایا: خدا وند عالم نے اس دن (یوم غدیر) تمھارے لئے دو عظیم اور بڑی عیدوں کوجمع کردیا ہے.
(عوالم جلد ۱۵/۳ صفحہ۲۰۸)

        اس یوم پئے خدا نے دین مکمل کردیا. اللہ پاک نے ولایت امیرالمؤمنن علی۴ ابن ابی طالب ۴ کی جانشینی کا اعلان کروایا. اور بتا دیا سب کو کے رسول صہ کے بعد اس کا وصی جانشین صرف علی۴ ابن ابی طالب ۴ ہی ہین. لوگون نے مولا علی۴ کو مبارکباد دینا شروع کر دیا اور کہنے لگے یاعلی۴ بکن بکن آج آپ ہمارے بھی مولا ہوئے اور تمام مؤمنین اور مؤمنات کے بھی مولا ہوئے.
امام علی رضا۴ اپنے مومنین کو یوم غدیر کے دن نئے کپرے آنگونھٹیان بہجتے تھے.
ھمین بھی چاہے اس یوم کو اپنے مومنین کو نئے کپڑے اور اچہے تحفہ دینے چاہے ایک دوسرے کی دعوت کرنے چاھے اور غدیر کا دن عید کا دن ھے. عرش والے بھے خوشیان مناتی  ہین. ہم بھی منائیں معصومن علیہ السلام کا فرمان ہے کے جو ہمارے خوشی میں خوشی مناتا ہے اور جو ہمارے دوکھوں میں مناتاہے وہی ہمارا ہے.

‏ولاء عـــــلــــــی۴ ســــــے تـــــــو زنـــــــــــــداہ ہــــــون
ولا کــــــــے بـــــغــــــــیر" نــــــوکـــــر" انــــــداہ ہـــــون.

‏ولایــــت علـــــی۴  رکـــھــــنا ضـــــــروری ہے
وارنہ"نــــــوکــــر" ہـــر عــــــبادت ادھــوری ہے

‏ولاء عــــلـــــــی۴ مـــــــیں رہـــــتا مـــــــست ہــــــون
مارتا ولا کـــــے دشــــــمن کـــــــو" نــــــوکــــر" بــــــرســـــــٹ ہــــــــون.

تحریر: نـــــــــوکَــــــــرِ عـــــــلــــــی کانہـــــــر.

Monday 12 September 2016

عيد

چ                     عيد الاضحي
عيد جي ڏينهن جي حوالي سان مولا اميرالمؤمنن علي عليہ السلام جو ڪيترو نہ نهايت هي فرمان آھي تہ جنهن ڏينهن انسان ڪوئي بہ گناھ نہ ڪري ٿو اهو ڏينهن عيد کان گهٽ نہ آھي.
   مسلمان هر سال ٻہ وڏيون عيدئون ملهائيندا آهن. هڪ عيدالفطر هڪ عيدالاضحى هتي مان عيدالاضحى جو ذ ڪر ڪندس. هن عيد تي مسلمان حضرت ابراهيم عليہ السلام ۽ حضرت اسماعيل عليہ السلام جي ياد تازا ڪندا آھن. اللہ تعالي خواب ۾ حضرت ابراهيم ع کي بشارت ڏني تہ اي ابراهيم سڀ کان وڌ پياري شيءَ مون الله جي راھ ۾ قربان ڪر. حضرت ابراهيم ع سڄو خواب جو احوال  پنهنجي گهر واري ۽ پنهنجي پٽ کي ٻڌايو. انهن چيو جيڪا شيءَ پياري آهي اوهان جي نزديڪ اها اللہ جي راھ ۾ قربان ڪيو. حضرت ابراهيم ع فرمايو منهنجي نزديڪ پٽ حضرت اسماعيل ع کان وڌ ڪا بہ نہ آھي. جنهن تي حضرت اسماعيل ع لبيڪ چيو جنهن کان بعد حضرت ابراهيم ع حضرت اسماعيل ع کي ليٽايو ۽ اکين تي پٽي ٻڌي هٿ ۾ ڇُري کنئي اڃان ڇُري هلي ئي نہ تہ اللہ تعاليٰ حضرت جيبرائيل ع کي حڪم ڏنو جلدي ڪر جنت مان دبُو کڻي حضرت اسماعيل ع جي جاءِ تي ڏي دبوُ ذبح ٿي ويو حضرت ابراهيم ع جو ڏٺو حضرت اسماعيل ع جي جاءِ تي دبُو ذبح ٿي ويو. حضرت ابراهيم ع کي اللہ وحي نازل ڪئي اي ابراهيم ع تون امتحان ۾ پاس ٿي وئين .
   افسوس! مسلمانن کان وڏي قرباني وسري وئي ۽ ننڍي قرباني ياد آھي. جنهن دين جا اسان داويدار پيا سڏايون اسان جو ان دين کي بچائڻ ۾ ڪهڙو خرچ آيو آھي. اسان کي تہ دين ڱهر وئٺي مليو آ.
      هن دين کي بچائڻ جي خاطر آل نبي صہ جن وڏيون قربانيون ڏنيون تڏهن وڃي دين بچو. پنهنجو ڱهراڻو.قربان ڪيائون ۽ الله جي راھ ۾ پنهنجن جانين جي قربانيون ڏنائون ڇهن ميهينن جي لال کان وٺي 32 سالن جا جوان 18 سالن جا جوان قرباب ڪيائون تہ دين بچي پئي. جهنڱلن پهاڙن جا سفر ڪري قيدي ٿي اللہ جي رضا ۾ راضي رهيا ڪڏھن بہ شڪايت زبان تي نہ آئي.

  افسوس! مسلمان کي حضرت ابراهيم عليہ السلام جو دبُو تي ياد رهجي ويو پر آل نبي صہ جو ڪنبو وساري ڇڏيو.

تحرير: نوڪرعلي ڪانهر.

Tuesday 26 July 2016

YA ZAHERA sa

حضرت فاطمہ (س) کے نام کي وجہ تسميہ

پيغمبر اسلام (ص) سے منقول ہے کہ حضرت فاطمہ (س) سے پيغمبر اکرم (ص) نے دريافت کيا کہ کيا تم جانتي ہو کہ تمہارا نام فاطمہ کيوں رکھا گيا؟
حضرت علي (ع) نے عرض کيا: يا رسول اللہ (ص)! آپ ہي اس کي وجہ تسميہ بيان فرمائيے، پيغمبر (ص) نے ارشاد فرمايا: اس کي وجہ يہ ہے کہ بروز قيامت خداوند عالم فاطمہ (س) اور اس کے شيعيوں کو آتش جہنم سے محفوظ رکھے گا-
(ذخائر العقبي صفحہ 26، ينابيع المودة صفحہ 194، الصواعق الحرقہ صفحہ 245)
پيغمبر اسلام (ص) جناب فاطمہ کي شان ميں فرمايا:
"قيامت کے دن ميري بيٹي فاطمہ ايسے بہشتي ناقہ پر سوار ہوکر ميدان محشر ميں وارد ہوگي جس کي مہار مرواريد کي، چار پائے زمرد سبز کے، آنکھيں ياقوت سرخ کي اور اس پر ايک قبہ نور ہوگا جس سے ہر شي ديکھي جا سکے گي، اس ناقہ کے سر پر ايک تاج ہوگا جس کے گرد ياقوت کے ستر پائے ہوں گے وہ اسي طرح ضو افشاني کريں گے جس طرح آسمان پر ستارے اس سواري کے ذہني طرف ستر ہزار ملک، بائيں طرف ستر ہزار ملک اور اس ناقہ کي مہار جبرئيل کے ہاتھ ميں ہوگي اور وہ بہ آواز بلند ندا ديں گے! اے اہل محشر تم اپني آنکھيں بند کر لو ابھي فاطمہ بنت محمد (ص) گزريں گي- يہ سنتے ہي سب کے سب يہاں تک کہ پيغمبر و انبياء اور شہداء، صديقين بھي اپني آنکھيں بند کر ليں گے، فاطمہ (س) الہي کے سامنے کھڑي ہوجائيں گي اس وقت صدائے الہي گونجے گي: اے ميرے حبيب کي بيٹي تم جو بھي مجھ سے مانگو گي ميں دوں گا اور جس کي تم شفاعت کروگي ميں اس گو قبول کروں گا، فاطمہ (س) کہيں گي اے ميرے خدا ميري ذريت اور ميرے شيعيوں کي شفاعت قبول فرما، بار ديگر صدائے الہي بلند ہوگي: کہاں ہيں ذريت فاطمہ (س) اور اس کي پيروي کرنے والے؟ کہاں ہيں اس کے ذريت کے دوست؟ اس وقت ايک گروہ آئے گا جس کا فرشتہ رحمت حصار کئے ہوگا اور فاطمہ (س) ان سب کو لے کر داخل بہشت ہوں گي-
(امالي صدوق صفحہ 25، بحار الانوار جلد 43، صفحہ 261، 220)

Sunday 24 July 2016

Lemon pani

نیویارک)قدرت روزنامہ24-جولائی-2016(اگر آپوزن کم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو آج ہم آپ کو لیموں سے بنا ایک ایسا آسان نسخہ بتائیں جے جس پر عمل کرکے آپ صرف 2 ہفتے میں 10 کلو سے زائد وزن کم کرلیں گے۔اس نسخے کے استعمال سے آپ کے جسم سے زہریلا مواد نکل جائے گااور آپ تروتازہ ہوجائیں گے ۔آپ کو ذیل میں دی ہوئی تراکیب پر سختی سے عمل کرنا ہے اور ہر صبح خالی پیٹ اسے استعمال کرنا ہے۔پہلا دنایک لیموں کو ایک کپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔دوسرا دندولیموﺅں کو دوکپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔تیسرا دنتین لیموﺅں کو تین کپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔چوتھا دنچار لیموﺅں کو چارکپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔پانچواں دنپانچ لیموﺅں کو پانچ کپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔چھٹا دنچھ لیموﺅں کو چھ کپ تازہ پانی میں ملا کرپئیں۔ساتویں دنتین لیموں لے کر10کپ پانی میں ایک چمچ شہد ملا لیں اور سارا دن یہ مشرو ب پئیں۔آٹھویں دنچھ لیموﺅں کو چھ کپ تازہ پانی میں ملا کرپئیں۔نویں دنپانچ لیموﺅں کو پانچ کپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔دسویں دنچار لیموﺅں کو چارکپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔گیارہویں دنتین لیموﺅں کو تین کپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔بارہویں دندولیموﺅں کو دوکپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔تیرویں دنایک لیموں کو ایک کپ تازہ پانی میں ملا کر پئیں۔چودویں دنتین لیموں لے کر10کپ پانی میں ایک چمچ شہد ملا لیں اور سارا دن یہ مشرو ب پئیں۔نوٹ:کوشش کریں کہ یہ مشروب ایک ہی ساتھپی لیا جائے لیکن اگر آپ کو مشکل ہوتو سارا دن میں کھانے سے کم از کم ایک گھنٹہ قبل استعما ل کریں۔ایسے افراد جنہیں معدے یا آنت کی تکالیف ہیں وہ اسکے استعمال سے قبل ڈاکٹر سے مشورہ کرلیں۔

Saturday 4 June 2016

کجين کي لڳندڙ

خيرپور ضلعي ۾ کجي جي فصل کي لڳل وائرس ۽ زراعت کاتي جي خاموشي
نوڪر علي ڪانهر / پير جو ڳوٺ
زراعت اسانجي ملڪ ۾ ڪرنگهيءَ  جي هڏي واري حيثيت رکي ٿي ۽ اسانجي ملڪ جي معيشيت جو دارومدار زراعت تي آهي پر زراعت کاتي پاران زراعت کي هٿي وٺرائڻ لاءِ بنهه ڪي به اپاءَ نٿا ورتا وڃن جنهنڪري ڪٿي فصل تباهه ٿي رهيا آهن ته ڪٿي زمينون غير آباد  ٿي ويون آهن خيرپور کجور منڊي ايشيا جي وڏين کجور منڊين ۾ شمار ٿئي ٿي ۽ هن وقت به خيرپور  ضلعي جي ٺيڙهي، ٻٻرلوءِ، گمبٽ، ڪوٽ ڏيجي، پريالوءِ، بخشو واهڻ، گاگڙي، باگو ڦلپوٽو، رپڙي، بهارو، صدرجي ڀٽِيون، کهڙا، ڪوٽ مير محمد، الرا جاگيرا ۽ ٻين علائقن ۾ 2 لک ايڪڙن تي کجين جا باغ بيٺل آهن ۽ هر سال لکين ٽن کجين جا ڀارت ۽ ٻين ملڪن ڏانهن ايسڪپورٽ ڪيا ويندا آهن ۽ ججهو ناڻو حاصل ڪيو ويندو آهي ۽ هزارين ماڻهن جو روزگار کجور سان لاڳاپيل هوندو آهي جڏهن ته خيرپور ضلعي جي کجور سنڌ جي معيشيت تي اثر رکي ٿي پر خيرپور ضلعي اندر کجي جي فصل تي ” ٻر “ نالي وائرس حملو ڪري ڏنو آهي جنهن ڪري بيٺل کجي جو فصل سڙي تباهه ٿي رهيو آهي اهڙي صورتحال ڪري آبادگار سخت پريشان حال ٿي ويا آهن ڇوته کين ڪروڙين رپين جو نقصان ٿي رهيو آهي آباگارن موجب، زراعت کاتو جيڪو لکين رپين جي بجيٽ حاصل ڪري ٿو ۽ وڏا وڏا آفيسر وڏيون مراعتون حاصل ڪيون ويٺا آهن ڪروڙين رپين جو نقصان تي سندن مٿي ۾ جوءن  به نه چري آهي آبادگارن موجب ڄاڻايل وائرس لڳڻ ڪري کجي جو وڻ ڪوئر کان سڪڻ شروع ڪري ٿو ۽ مڪمل طور مفلوج بڻجي وڃي ٿو ۽ کجي ۾ بيٺل ڦر (کسون) ڇڻي وڃڻ ٿيون ۽ اڳ ۾ خيرپور ضلعي اندر کجي جي فصل تي جهازن ذريعي اسپري ڪرايو ويندو هو  جنهن سان کجي جو فصل هر بيماري کان محفوظ هوندو هو پر هاڻ زراعت کاتي پاران اهڙا اسپري نه ڪرڻ ڪري کجي جي فصل کي بيماري وڪوڙي وئي آهي آبادگارن موجب مارڪيٽ مان ڳري رقم تي زرعي دوائون وٺي اسپري وغير ڪيون پيا پر بيماري تي ڪنٽرول نٿو ٿئي جنهنڪري آبادگار ويتر ٻڏ تر جو شڪار ٿي ويا آهن انڪري زراعت کاتي کي گهرجي ته هنگامي بنيادن تي کجي جي فصل کي لڳل بيماري تي ڪنٽرول ڪرڻ لاءِ تڪڙا اپاءَ وٺي کجي جي فصل کي بچائي آبادگارن جي پريشاني ختم ڪئي وڃي.